غزل
چہرے پہ جو تیرے نظر کر گیا
جان سے وہ اپنی گزر کر گیا
جس کی طرف سے تری آنکھیں پھریں
اشک کے مانند سفر کر گیا
منہ کو دیکھا اپنے وہ خورشید رو
شام غریباں کو سحر کر گیا
اس کو نکالے کوئی کس طور سے
تیر مژہ سینے میں گھر کر گیا
رخصت موعود تھی ہچکی نہ تھی
چلتے ہوئے دم یہ خبر کر گیا
جو کوئی بیٹھا ترے کوچے میں آ
اٹھ نہ سکا یارو وہ مر کر گیا
جس کی نظر عشقؔ کے اوپر پڑی
چشم کے تئیں اپنی وہ تر کر گیا
خواجہ رکن الدین عشق