ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی

احمد علی برقی اعظمی (25 دسمبر 1954 – 5 دسمبر 2022) ایک بھارتی ادیب شاعر تھے۔ ان کے والد رحمت الہی برقی اعظمی دبستان داغ دہلوی سے تعلق رکھتے تھے اور ایک استاد شاعر تھے ۔

احمد علی برقی اعظمی کی ابتدائی تعلیم شبلی نیشنل کالج اعظم گڑھ میں ہوئی۔ 1977 میں وہ آل انڈیا ریڈیو کے شعبہ فارسی سے منسلک ہو گئے ۔ انہوں نے جواہر لال نہرو ٰونیورسٹی  سے فارسی میں ایم۔ اے ۔ کرنے کے بعد 1996 میں اسی یونیورسٹی سے فارسی میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی

برقی اعظمی صاحب کو 15 سال کی عمر سے شعر گوئی کا ذوق و شوق رہا ہے۔ ان کی دلچسپی جدید سائنس میں انٹرنیٹ اور خاص طور پر اردو کی ویب سائٹس سے جنون کی حد تک رہی۔ وہ اردو اور فارسی میں یکساں مہارت کے ساتھ غزل کہتے تھے۔ فی لبدیہہ اور موضوعاتی شاعری میں وہ مہارت رکھتے تھے۔ برقی آل انڈیا ریڈیو میں شعبہ فارسی کے انچارج کے عہدےپر فائز رہے۔ انہوں نے بحیثیت ترجمہ کار اور اناؤنسر خدمت انجام دی اور آل انڈیا ریڈیو نئی دہلی سے وظیفہ یاب ہوئے اور دہلی میں مقیم رہے۔

برقی اعظمی نے ادبی خدمات کے واسطے کئی اعزازات پائے جن میں اردو اکیڈمی نئی دہلی  ایوارڈ، فخرِ اردو ایوارڈ – 2014 – اردو گلڈ، جموں و کشمیر اورمحمد علی جوہر محمدایوارڈ -اکرم میموریل پبلک سوسائٹی  ،بجنور موج سخن پاکستان سے شان ادب ایوارڈ شامل ہیں۔

ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی کا انتقال 5 دسمبر 2022 کو جونپور میں ہوا۔ مختصر تعارف : ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی
نام: احمد علی
فرزند : رحمت الہی برق اعظمی
تخلص: برقی
تعلیم : ایم اے (اردو و فارسی) پی ایچ ڈی ـ فارسی
پیشہ :سابق اناؤنسر براڈکاسٹرفارسی آل انڈیا ریڈیو
رہائشی شہر:نئی دہلی
شاعری کی ابتدا: اوائل سن شعور
اصناف سخن :جملہ اصناف سخن
پہلا شعری مجموعہ روح سخن
دوسرا شعری مجموعہ محشرِ خیال
نمائندہ شعر:
وہی لکھتا ہے ان دنوں برقی
ہے جو اُس کےضمیر کی آواز

انتخاب کلام برقی اعظمی
اک یادوں کی بارات اِدھر بھی ہے اُدھر بھی
اب شدتِ جذبات اِدھر بھی ہے اُدھر بھی
یہ ترکِ تعلق کا نتیجہ ہے کہ جس سے
اب شوقَ ملاقات اِدھر بھی ہے اُدھر بھی
ساتھ رہتے ہوے بے شمار آدمی
مثلِ سیماب ہے بیقرار آدمی
مال و زر پر یہ مرتا ہے سارا جہاں
یہ بتائیں کرے کس سے پیار آدمی
گذر رہے ہیں شب و روز کس زمانے میں
مرا ہی نام نہیں ہے مرے فسانے میں
درِ دل پر ہوں میں اب تیرے لئے چشم براہ
میں ہو مشتاق ترا بھول نہ جانا اے دوست
میری غزلوں کا ہے موضوع سخن تیرا خیال
روح پرور ہے بہت دل کا لگانا اے دوست
وہ ایک جھلک دکھلا بھی گئے
وعدوں سے ہمیں بہلا بھی گئے
اک لمحہ خوشی دے کر ہم کو
برسوں کے لئے تڑپا بھی گئے
آنکھوں میں شرابِ شوق لئے دروازۂ دل سے یوں گذرے
میخانۂ ہستی میں آکر وہ پی بھی گئے چھلکا بھی گئے
خدا کسی کو نہ وہ ذوق خودنمائی دے
نہ جس سے اپنے سوا اور کچھ دکھائی دے
کنویں میں ڈال دے یوسف سے مہ جبیں کوجو
کبھی کسی کو خدایا نہ ایسا بھائی دے
کیا اس سے بیاں حالِ زبوں اپنا تو یہ بولا
جئے، ہے جس کوجینا اور جسے مرنا ہے مر جائے
تو بجھانا چاہتا ہے میری قسمت کے چراغ
بجھ نہ جائیں دیکھ تیری شان و شوکت کے چراغ
ہو نہ جائے ان سے گل تیری بھی شمعِ زندگی
ہر طرف تونے جلائے ہیں جو نفرت کے چراغ
سب کرو بس نگہہِ ناز چرانے کے سوا
کچھ بھی کہہ سکتے ہو تم لوٹ کے جانے کے سوا
کُھلا ہے میرا چلے آئئے دریچۂ دل
پڑھا نہیں ہے ابھی کیا مرا جریدۂ دل
دھڑک رہے ہیں فقط آپ اس کی دھڑکن میں
سوائے آپ کے کوئی نہیں وظیفۂ دل
مار ڈالے نہ یہ تنہائی کا احساس مجھے
منتظر جس کا تھا اب وہ نہیں آنے والا
اس نے منجدھار میں کشتی کو مری چھوڑ دیا
تھا جو طوفانِ حوادث سے بچانے والا
اِس دور کا اُس دور سے دستور جدا ہے
حق چھین لیا کرتے ہیں مانگا نہیں کرتے
ہمیں ایک دوسرے پر اگر اعتبار ہوتا
مجھے اس سے پیار ہوتا اسے مجھ سے پیار ہوتا
یہ خمیر جسم و جاں ہے غم و رنج کا مرقع
غمِ زندگی نہ ہوتا غمِ روزگار ہوتا
کرنے سے پہلے قتل مجھے سوچتے ہیں وہ
’’ دو گز زمیں بھی چاہئے دو گز کفن کے بعد‘‘
اس جرم بے گناہی کی اب پوچھتے ہیں وہ
ہے اور بھی سزا کوئی دارو رسن کے بعد
کسی کی ہوئی ہے کہ میری یہ ہوگی
بہت جلد ہی بھول جائے گی دنیا
بند بلبل کا چمن میں ناطقہ ہے اِن دنوں
ایک ذہنی کرب میں وہ مبتلا ہے اِن دنوں
مت بجاؤ ایسے میں بے وقت کی شہنائیاں
خانۂ دل جیسے اک ماتم کدہ ہو اِن دنوں
بے درد زمانے سے ٹکرا بھی نہیں سکتے
اظہار محبت سے باز آ بھی نہیں سکتے
حالات ہیں کچھ ایسے نذرانۂ دل اس کا
ہم لے بھی نہیں سکتے ٹھکرا بھی نہیں سکتے
خوابوں میں بناتا ہے حسیں تاج محل وہ
اپنے لئے اک گھر جو بنا بھی نہیں سکتا
سب کرو بس نگہہِ ناز چرانے کے سوا
کچھ بھی کہہ سکتے ہو تم لوٹ کے جانے کے سوا
تم کہاں کھو گئے کب سے ہوں تمھارا مشتاق
ہے میسر مجھے سب کچھ تمھیں پانے کے سوا
دلآزاری کے حربے نِت نئے ایجاد کرتے ہیں
وہ ہو جاتے ہیں برہم اُن سے جب فریاد کرتے ہیں
سجا کر سر پہ سہرا دوسروں کے کارنامے کا
وہ اپنی کامیابی کی بیاں روداد کرتے ہیں
تیز تر تلوار سے بھی ہے صحافی کا قلم
سچ دکھائے جو نہ پھر وہ آئینہ کیوں کر ہوا

موجِ سخن ریسرچ ڈیسک