غزل
ڈوبنا جب ہو مقدر کیا کنارا دیکھنا
دور رہ کر ہی سہی پر تم نظارہ دیکھنا
یہ نہیں کہتا کہ ڈوبوں تو بچا لینا مجھے
ہاں مگر جاتے ہوئے مڑ کر دوبارہ دیکھنا
جیت جاتا ہوں کبھی جب زندگی کی دوڑ میں
پھر پلٹ آتی ہیں یادیں وہ تمھارا دیکھنا
آپ ہی ڈھونا ہے جب اس زندگی کے بوجھ کو
کیا کسی کو ڈھونڈنا اور کیا سہارا دیکھنا
اس جہاں میں کچھ بھی ممکن کچھ بھی ناممکن نہیں
کیا ستاروں میں الجھنا استخارہ دیکھنا
کٹ گئے یوں گھر میں بیٹھی بیٹیوں کے روز و شب
آئینے کو دیکھنا رکھنا دوبارہ دیکھنا
چپ نہ بیٹھو سب کہو کیا چاہتے ہو ہم سے تم
کچھ بتاؤ تو سہی پھر دل ہمارا دیکھنا
تم نے تو عمران یونہی کاٹ دی سب زندگی
چاہئیے تھا اس کے جلوے آشکارہ دیکھنا
احمد عمران اویسی