loader image

MOJ E SUKHAN

اردو شعراء

18/06/2025 04:02

کئ کردار خود اپنی کہانی سے گریزاں ہیں

کئ کردار خود اپنی کہانی سے گریزاں ہیں
شعورِ عمر پا کر زندگانی سے گریز ہیں

ستارے ٹوٹ کر گرتے ہیں جب دھرتی کے سینے پر
سمجھ لینا خلا کی لا مکانی سے گریزاں ہیں

اگر دیکھی کسی نے سات سالہ نوکرانی تو
بتانا کس لیے غربا جوانی سے گریزاں ہیں

سنا ہی قافلہ تھا کوئی جس کے پیاسے رہنے پر
کجا بادل کجا دریا روانی سے گریزاں ہیں

شبِ ہجراں تری قسمت میں کیسی رو سیاہی ہے
درخشندہ ستارے ضو فشانی سے گریزاں ہیں

.بجھے رنگوں کی رونق اور کشش کیا شازیہ اکبر
نئ تصویر دیکھی تو پرانی سے
گریزاں ہیں

خلا میں رہ کے جینا چاہتے ہوں گے جہاں والے
زمینی آسمانی حکمرانی سے گریزاں ہیں

شازیہ اکبر

Email
Facebook
WhatsApp

مزید شاعری

رباعیات

غزلیات
نظم