غزل
کاش مجھ کو ترے ہونے کا سہارا ہوتا
میرے دریائے تمنا کا کنارا ہوتا
مان رکھا نہ گیا تجھ سے مری الفت کا
لے کے دل تُو نے مرے منہ پہ نہ مارا ہوتا
زندگی اپنی محبت میں حسیں ہو جاتی
عمر بھر کے لئے اک شخص ہمارا ہوتا
میرے آنچل نے ہوا کو بھی کیا ہے مہیمیز
کاش زلفوں کو کبھی اپنی سنوارا ہوتا
اجنبی بن کے نہ شہروں میں یوں پھرتے نقویؔ
دل سے اک شخص اگر آج ہمارا ہوتا
معظمہ نقوی