کافی نہیں خطوط کسی بات کے لئے
تشریف لائیے گا ملاقات کے لئے
۔
دنیا میں کیا کسی سے کسی کو غرض نہیں
ہر کوئی جی رہا ہے فقط ذات کے لئے
۔
ہم بارگاہ ناز میں اس بے نیاز کی
پیدا کئے گئے ہیں شکایات کے لئے
۔
ہیں پتھروں کی زد پہ تمہاری گلی میں ہم
کیا آئے تھے یہاں اسی برسات کے لئے
۔
اپنی طرف سے کچھ بھی انہوں نے نہیں کہا
ہم نے جواب صرف سوالات کے لئے
۔
روشن کرو نہ شام سے پہلے چراغ جام
دن کے لئے یہ چیز ہے یا رات کے لئے
۔
مہنگائی راہ راست پہ لے آئی کھینچ کر
بچتی نہیں رقم بری عادات کے لئے
۔
کرنے کے کام کیوں نہیں کرتے شعورؔ تم
کیا زندگی ملی ہے خرافات کے لئے
انور شعور