کالی گھٹا کی اَوڑھنی چہرے پہ ڈال کر
بیٹھا فلک پہ چاند ہے گھونگھٹ نکال کر
حالانکہ ہیں یہ دل کئ تکالیف کا سبب
رکھتا ہوں تیری یادوں کو پھر بھی سنبھال کر
ہر شخص تر بہ تر ہے پسینے سے راہ میں
سورج! مسافروں کا تو کچھ تَو خیال کر
اب تَو گزارنا بھی شب و روز ہیں عذاب
جینا نہ آتما سے غمِ جاں! محال کر
جس کا جواب دینے سے تکلیف دل کو ہو
اے چارہ گر! نہ مجھ سےتو ایسا سوال کر
پھیلا کے ہاتھ راہ میں اِک بدنصیب ماں
بیٹھی ہے اپنے بچے کو جھولی میں ڈال کر
ہوتے ہیں مال و زر سے بھی اے شمس! قیمتی
رکھنا تم اپنی آنکھوں کے آنسو سنبھال کر
ظہیر الدین شمس