کام دشوار سہی ہم نے مگر کرنا ہے
بیج کی گود سے دیدارِ شجر کرنا ہے
اس سے گلشن کے تقدس میں خلل پڑتا ہے
اس لیے کاغذی گل نذرِ شجر کرنا ہے
پھر سے دستورِ مسافت کو مرتب کرکے
ہم نے آرام بھی ہم رنگِ سفر کرنا ہے
اب تو دشنام ہوا کھیل وفا کا یارو
کوئی اچھا سا کرو کام اگر کرنا ہے
اپنی آنکھوں کے جھرونکوں میں بٹھا کر اس کو
اک اشارے میں نظارے کو نظر کرنا ہے
خون ریزی کا ارادہ تو نہیں ہے لیکن
تیغ کے وار سے اندازہء شر کرنا ہے
واپسی کے لیے تا عمر ترستا ہی رہے
اس قرینے سے اسے شہر بدر کرنا ہے
ہم محبت کے پیامی ہیں سیاست کے نہیں
آؤ مل جل کہ کریں کام اگر کرنا ہے
جان میں وقت کے ماتھے ہی عمودی خط ہوں
میری قسمت میں بلندی کو سفر کرنا ہے
جان کاشمیری