Kaantoo bhari Hayyat ki Tanhayoo ka Haal
غزل
کانٹوں بھری حیات کی تنہائیوں کا حال
وہ پوچھتا ہے رات کی تنہائیوں کا حال
اندھی طویل راہ سے بیزار ہوں تو کیا
لکھنا ہے التفات کی تنہائیوں کا حال
پروردگار تیری نظر میں رہے سدا
اس میری کائنات کی تنہائیوں کا حال
خوشیاں ملیں اُسے تو ملا مجھ کو اضظراب
وہ دیکھے میری ذات کی تنہائیوں کا حال
گلشن کے آس پاس نئے رنگ دیکھ کر
کھلتا ہے خو اھشات کی تنہائیوں کا حال
شبنم کا روپ اوڑھ کے ساربؔ ملا ہے وہ
کیوں پوچھوں اس سے رات کی تنہائیوں کا حال
رشید سارب
Rasheed Sarib