کبھی بت انا کے گرا کر تو دیکھو
ہیں اپنے سبھی ان میں آکر تو دیکھو
گنوانے کو دل کے سوا اور کیا ہے
چلو پھر اسے بھی گنوا کر تو دیکھو
منانے کا اپنا الگ ہی مزہ ہے
جو روٹھا ہے اس کو منا کر تو دیکھو
ہر اک خود کرے احتساب آپ اپنا
نئی رسم دنیا میں لا کر تو دیکھو
نظر آئے گا سب کو اپنا ہی چہرہ
حقیقت سے پردہ اٹھا کر تو دیکھو
ہے سب سے الگ ہی یہ رنگ حنائی
ہتھیلی پہ مہندی رچا کر تو دیکھو
جسے مانتی ہو صبیحہ حقیقت
اسے ضبطِ تحریر میں لا کرتو دیکھو
صبیحہ خان صبیحہ