کبھی بہاروں کے مو سموں میں جو دل کی بستی غزل سرا تھی
وہیں کہیں ایک آرزو کے مچلنے کی بھی بڑی کتھا تھی
جلا کے جب ساری کشتیاں میں سمندروں کے سفر پہ نکلی
اسی گھڑی تو جبینِ شب پر لکھی گئی جو مری دعا تھی
بنا سہاروں کے زیست مشکل گزار آئی تو پھر یہ جانا
کہ میں ہی اپنے حسیں چمن کی زمین نم تھی، شجر گھنا تھی
وراثتوں کی کتاب کھولی تو نام میرا کہیں نہیں تھا
میں چپ تھی سوچا کہ اس میں شاید مرے قبیلے کی بھی رضا تھی
جلے گا دل تو دھواں اٹھے گا، یہ آگ ایسے نہیں بجھے گی
نگر نگر یہ خبر پہنچتی ، مگر ہوا کی عجب دشا تھی
بہت پکارا تھا منزلوں نے حنا مجھے ان ہی راستوں سے
مگر مسلسل سفر تھا میرا، کہیں نہ رکنے میں ہی بقا تھی
ڈاکٹر حنا امبرین طارق