غزل
کبھی تو اس آب و ہوا کو بدل کر
مجھے دیکھ خود سے تو باہر نکل کر
تماشا نہیں ہے فقط تیری دنیا
کھلا بھید مجھ پر یہ گھر سے نکل کر
یہ کم تو نہیں ہے کہ شہر سخن تک
میں خود اپنے پیروں پہ آیا ہوں چل کر
کہاں دیکھتا ہے ادھر کو ادھر کو
یہ الجھن ہے تیری اسے خود ہی حل کر
زمیں نکلی جاتی ہے پیروں سے میرے
بہت چل رہا ہوں اگرچہ سنبھل کر
بدل جائے شاید مزاج اس کا خاورؔ
چلو دیکھتے ہیں یہ موسم بدل کر
اقبال خاور