کبھی سنتے تھے اوروں کی زبانی
مگر اب بن رہے ہیں خود کہانی
قلم سے دوستی قائم ہے اب تک
وگرنہ رائگاں تھی زندگانی ۔۔۔
نہ ہو شکوہ کوئی تیرہ شبی کا
اگر مل جائیں کچھ صبحیں سہانی
رہا صحرا وہی پیاسا کا پیاسا
سمندر لے گیا ہے سارا پانی
کسی اک دل میں تو رہنا ہے آخر
نہیں انساں کو زیبا لا مکانی
ملی تھی جو مجھے شوقِ جنوں سے
خرد نے چھین لی وہ خوش گمانی
تعلق ٹوٹ سکتے ہیں پرانے
جو در آئے دلوں میں بد گمانی
ضیاء لڑنا ہے ہم کو تیرگی سے
لیئے لفظوں میں اپنے ضو فشانی
ضیاء زیدی