غزل
کبھی صلیب کی صورت کبھی ہلالی تھا
مری نگاہ میں اک پیکر خیالی تھا
ہماری آپ کی شاید کوئی مثال نہیں
جو مر گیا ہے وہی آدمی مثالی تھا
کئی پتنگ کی صورت خلا میں ڈوب گیا
وہ جتنا تیز تھا اتنا ہی لاابالی تھا
اڑا اور اڑ کے فضاؤں میں ہو گیا تحلیل
بدن کے بوجھ سے اس کا وجود خالی تھا
وہ توڑ لیتا تھا پتے ہوا کی شاخوں سے
کمال اس کا حقیقت میں بے کمالی تھا
بنا ہوا تھا جو شہر وفا کا شہزادہ
وہ میں نہیں تھا مرا ذوق خوش جمالی تھا
میں چھپتا پھرتا تھا شہروں میں کوہساروں میں
وہ ایک شخص مگر ہر جگہ سوالی تھا
پڑا تھا راہ میں جو سنگ میل سے آگے
وہ اپنے وقت کا فرحتؔ نہیں غزالی تھا
فرحت قادری