کبھی فلک پہ کبھی اس جہانِ فانی میں
میں زندگی کی علامت ہوں ہر کہانی میں
کسی کے لمسِ محبت کی شادمانی میں
ڈبو دیا اسے کچے گھڑے نے پانی میں
وہ چاند چہرہ مری زندگی کا محور ہے
جو میرا دوست بنا تھا بھری جوانی میں
مرے حروفِ محبت نہیں کھلے اس پر
میں خرچ ہوگیا اظہارِ خوش بیانی میں
کچھ ایسے فیصلے اس نے کیے تھے میرے لیے
میں خود شریک ہوا اپنی رائیگانی میں
فریب دیتے ہیں کچھ لوگ آئینوں کو بھی
اگرچہ آئنے ماہر ہیں حق بیانی میں
فلک پہ جانا ہے مجھ کو حیاتِ نو کے لیے
میں اپنے رب کی امانت ہوں دارِ فانی میں
سنی ہیں شامِ غریباں کی مجلسیں جب سے
چراغِ اشک جلاتا ہوں نوحہ خوانی میں
نثار کون ہے وہ خوش نصیب جس کے لیے
تمام لوگ ہیں مصروف گل فشانی میں
ڈاکٹر نثار احمد نثار