Kabhi lehja kabhi doori kabhi kirdaar ka dukh
غزل
کبھی لہجہ کبھی دوری کبھی کردار کا دکھ
کشتیاں کب ہیں سمجھتیں کسی پتوار کا دکھ
اک پڑوسی نے بنایا ہے مکاں قصر نما
اک پڑوسی کو ہے گرتی ہوئی دیوار کا دکھ
میں خوشی سے تو نہیں چہرے بدلتا ہو یہاں
اسی کردار میں پوشیدہ ہے فنکار کا دکھ
کاش تُو لذتِ محنت سے شناسا ہوتا
تُو نہیں سمجھے گا ٹوٹی ہوئی تلوار کا دکھ
روز کہتا ہوں میں قسمت سے نہیں یہ بھی نہیں
کوئی تو لائے کہیں سے مرے معیار کا دکھ
لوگ تو لوگ ہیں بے بس بھی تماشائی بھی
تُو خدا ہے تو سمجھ اپنے گنہ گار کا دکھ
فہم و ادراک کی الجھن نہیں کافی صابر
اس پہ یہ دل بھی دھڑکتا ہوا بے کار کا دکھ
صابر چودھری
Sabir Choudhry