غزل
کبھی پرکھو تو لفظوں کو معانی سے نکل کر
ذرا سوچو کبھی تم بھی کہانی سے نکل کر
ذرا سوچو کبھی تم بھی کہانی سے نکل کر
کرن اُمید کی من کا اندھیرا بھی مٹا دے
دیا کوئی جلائے بدگمانی سے نکل کر
ہر اِک منظر مر ی نظرو ں میں ہے بے رنگ سا اب
کہاں خوش ہوں کسی کی مہربانی سے نکل کر
گریزاں ہے جو میری ذات سے اس سے یہ کہنا
کبھی دیکھے ذرا وہ خوش کمانی سے نکل کر
تھکا ڈالا ہے ہم کو بھی غموں کی میزبانی نے
ذرا غم بھی تو دیکھیں میزبانی سے نکل کر
میں ساری عمر کی محنت کو کیسے رائیگاں لکھ دوں
کہاں جاؤں تمھاری مہربانی سے نکل کر
تمھیں محسوس کیسے ہو کسی کا درد رومی
کبھی دیکھو تو اپنی راج دھانی سے نکل کر
رومانہ رومی