نظم
کبھی یوں بھی ہوتا ہے زیست میں
جسے عمر بھر کا ریاض دو
وہ جو وحشتوں کا حواس ہو
وہ جو خواہشوں کا جواز ہو
جو سکوں کا میٹھا سا ساز ہو
وہی ہم نفس کسی موڑ پر
ہاں بلا سبب یوں ہی چھوڑ کر
نئے راستوں پہ وہ چل پڑے
جہاں چاہتوں میں ہیں بل پڑے
تری ہار میں تری جیت میں
کبھی یوں بھی ہوتا ہے زیست میں
کہ گمان ہو نہ خیال ہو
یوں ہی لمحہ لمحہ کمال ہو
کہ یہ لوگ کتنے کمال کے
کبھی زیست میں جو ملے ہمیں
جو نہ ہم سفر نہ ہی ہم نفس
جو چلیں کہ جب ہو صدا جرس
کسی موڑ پر وہ سمٹ گئے
یونہی راستوں سے وہ ہٹ گئے
نہ وہ دوست تھے نہ وہ ہم سفر
انہی لوگوں میں وہ بھی ایسا ہو
جو وفا کی بستی میں رہتا ہو
جو تجھے بھی اپنا ہی مان لے
سبھی رنج و غم کو سمیٹ کر
تجھے اپنے ساز میں ڈھال دے
کبھی یوں بھی ہوتا ہے زیست میں
کہ تم اپنے ہاتھوں سے خواب سب
یہ جو حسرتیں ہیں یہ آرزو
یہ حسین رشتوں کے سائباں
انہیں بے سبب ہی بکھیر دو
تو خدا سے یوں ہی سوال ہو
وفا ماضی سے ہو یا حال سے
رہے نام اونچا وفاؤں کا
نہ ہوں پیدا کوئی بھی الجھنیں
تو بے چینی تم سے کہے یہی
کیا خموشیوں میں بھی سنتی ہو
تو سنو مجھے کہو کچھ بھی تم
وہ اتر کہ آتی ہے خودبخود
کسی پیار کی کسی ریت میں
کسی پیار کی کسی ریت میں
کبھی یوں بھی ہوتا ہے زیست میں
آصف سہل مظفر
Asid sehal Muzaffar