کتنی مُشکل سے بچا پائے گی دُنیا پہلو
ہم جو بدلیں گے فقط اپنا ذرا سا پہلو
اُس نے تقدیر سے تدبیر کا رشتہ باندھا
ساتھ رہتا ہے دوا کے بھی دُعا کا پہلو
چہرے جُھوٹوں کے سرِ بزم اُتر جاتے ہیں
پیش کرتا ہُوں میں اشعار میں سچا پہلو
راستے پائے گا بخشش کے نرالے وہ بھی
جس نے دیکھا بھی نہیں تیری عطا کا پہلو
کون سی بات عنایات میں تُو نے رکھ دی
اپنا ہر بار جو منواتا ہے لوہا پہلو
اُنگلیاں اوروں کی جانب ہی اُٹھا کرتی ہیں
کس کو آتا ہے نظر اپنی خطا کا پہلو
بے گُناہی کی سزا مُجھ کو ملا کرتی ہے
واقعے کا مرے ہوتا ہے یہ کڑوا پہلو
ہم نے پہچان بنا رکھی ہے سب سے ہٹ کر
سب کے پہلو سے الگ ہوتا ہے اپنا پہلو
صاف گوئی بھی روایت یہ ہماری ٹھہری
راستے تیڑھے بھی ہوں گے تو ہے سیدھا پہلو
یار جاوید بڑے گھاگ ہُوا کرتے ہیں
ڈُھونڈ لیتے ہیں ہر اک بات میں کیا کیا پہلو
جاوید احمد خان جاوید