کتنے خواب تھے ان راتوں کے پہرے دار ہمیشہ سے
لیکن دیکھنے والی آنکھیں تھیں بیدار ہمیشہ سے
اتنے روپ بدلنے والی اس دنیا کو کیا سمجھیں
کچھ تو اس کی مجبوری ہے، کچھ فنکار ہمیشہ سے
یہ انہونی بات نہیں تھی لیکن تم تو ٹوٹ گئے
پیار کے رستے میں آتی ہے اک دیوار ہمیشہ سے
جب سے پڑھا تھا پہلا کلمہ ، تب سے ہم یہ جان گئے
ہر اقرار سے پہلے آتا ہے انکار ہمیشہ سے
جیسے کوئی قرض لیا ہو ایسے ہم نے خرچ کیا
حسن کی دولت پہ نگراں دل، ساہوکار ہمیشہ سے
پہلی منڈی جنس کی منڈی انسانی تہذیبوں کی
اور دنیا کے ہر خطے میں یہ بازار ہمیشہ سے
ٹوٹے نہیں تو سنگ سمجھتے ہیں سب اس کو اہل نظر
ٹوٹے دل کا شیشہ بنتا ہے شاہکار ہمیشہ سے
اتنی جلدی کیا ہے تھوڑا چاک پہ مجھ کو رہنے دو
دستِ ہنر کے لمس کو ترسی ہوں میں یار ہمیشہ سے
لاکھوں لوگ ہیں شازیہ اکبر جو گمنام ہی مرتے ہیں
اور کاغذ پر صدیوں زندہ کچھ کردار ہمیشہ سے
شازیہ اکبر