23/02/2025 06:34

‘کرماں والی’ (افسانہ) افسانہ نگار احسان الہی احسان

‘کرماں والی’ (افسانہ)

افسانہ نگار: احسان الٰہی احسان (ایوانِ ادب چکوال)

‘کرماں والی’

واہ۔ کیا ہی خوبصورت نام ہے۔ یعنی ایسی شخصیت ، ایسی عورت جو سرا سر خدا کے فضل و کرم سے بھری ہوئی ہے۔ لیکن نام سے کیا فرق پڑتا ہے۔ اسکے بارے پنجابی میں ایک بات مشہور ہے کہ ‘اکھیوں انی تے ناں رشنائی’ یعنی اگرچہ وہ نابینی ہے پھر بھی اس کا نام تو روشنی ہے۔

کرماں والی کے والدین بہت سادہ تھے۔ ماں بالکل ہی ایک پینڈو عورت اور باپ لوگوں کے چھوٹے موٹے کام کر کے دہاڑی لگانے والا۔ پھر بھی ماں باپ تو تھے ہی۔ یقیناً ان کے ہاں جب پہلی بیٹی پیدا ہوئی تھی تو وہ خوش تو ضرور ہوئے ہونگے اور اسی خوشی کے ترنگ میں ان کو یہ نام اچھا لگا ہوگا یا پھر کسی سے یہ نام سنا ہوگا تو پسند آ گیا ہو گا۔

کرماں والی اپنے والدین کے غریبانہ قسم کے لاڈ پیار میں پلی پوسی حتٰی کہ اس کے چہرے مہرے اور چال ڈھال سے جوانی کی نو خیزی سی نظر آنے لگی۔ ماں باپ کرماں والی کی اگلی منزل یعنی شادی کے بارے میں سوچنے لگے۔

یہ سوچ ابھی ابتدائی مرحلے میں تھی کی کرماں والی کی ماں کی صحت تنگ دستی اور کچھ معمول کی پریشانیوں کی وجہ متاثر ہونے لگی اور پھر ایک دن وہ اس دنیا سے رخصت ہو گئی۔

اب کرماں والی کے خاندان بلکہ گھر کے صرف دو افراد تھے۔ ایک کراماں والی اور دوسرا اس کا باپ جس کو سبھی لوگ چچا رمزو کہہ کر پکارتے تھے۔ کرماں والی کی اگلی منزل کا سارا بوجھ اب چچا رمزو کے کندھوں پر تھا۔ وہ دن کو مزدوری کے لئے جاتا تو بھی کچھ فکر مندی کے ساتھ کہ گھر پہ نوجوانی کی دہلیز پر قدم رکھنے والی ایک بیٹی کی عزت کو خدا محفوظ رکھے۔ کیونکہ اس کے خیال میں اس کے گاؤں اور خاص کر محلے کا ماحول کچھ ذیادہ اچھا نہیں تھا۔ چچا رمزو اب اس ذمہ داری سے جلدی فارغ ہونا چاہتا تھا۔

چچا رمزو کا ایک بھتیجا بھی تھا۔چچا رمزو کے مرحوم بڑے بھائی حیات کا بیٹا۔ وہ کچھ عرصہ پہلے تک تو فوج کا سپاہی تھا لیکن اس کے بارے میں مشہور تھا کہ فوج میں خوش نہیں۔ ایک دن یہ خبر عام ہو گئی کہ پھجو چچا رمزے کا بھتیجا فوج سے بھاگ آیا ہے۔ ایک رات وہ گھر اپنی ماں کے پاس رہالیکن دوسرے دن صبح ہی کو اپنی بیوہ ماں کرم نور کو یہ بتا کر گھر سے چلا گیا کہ وہ سندھ یا کراچی جا رہا ہے وہاں چھپ چھپا کر مزدوری کر کے خرچہ پورا کرتا رہے گا۔ گھر وہ نہیں رہ سکتا تھا کیونکہ اس کو ڈر تھا کہ فوجی اس کو پکڑ کر لے جائیں گے۔

چچا رمزو تو دن بھر مزدوری پر ہوتا تھا۔ شام کو گھر آتا تو گھر کے چھوٹے بڑے کام بھی انتظار کر رہے ہوتے۔ رات کا کھانا کھا کر جلدی ہی سو جاتا تھا۔ کرماں والی اپنے دن کا کچھ وقت تو گھریلو کاموں میں ہی گزارتی اور کچھ اپنے محلے کی سہیلیوں کے ساتھ جو اسکی ہم عمر ہی تھیں۔ وقت اچھا گزر جاتا۔ گپ شپ اور مذاق بھی ایک دوسرے کے ساتھ بہت ہوتا۔ ان نئی نویلی نوجوان لڑکیوں کی زبان اور اداؤں میں کچھ تبدیلی واضح طور پر نظر آ رہی تھی۔ اور یہ قدرتی بات تھی۔ گپ شپ میں کبھی کبھار محلے کے اور پڑوس کے کچھ لڑکوں کا ہلکا سا ذکر بھی ہو جاتا۔ ذکر عموماً تو طنز سے ہی بھرا ہوتا لیکن دلچسپ ضرور ہوتا۔

ان کے محلے میں دو چار دن سے گھر چھٹی آنے والے ایک نوجوان فوجی سپاہی حامد کا نام ان کے منہ سے پھسل کر کبھی کبھی گِر پڑتا تھا۔ کرماں والی اس نام سے تھوڑا شرمانے لگتی تو سہیلیوں کی تیکھی نگاہوں کا نشانہ بھی بن جاتی تھی۔ اور دوسری سہیلیوں کے آپس میں آنکھ مٹکے سے گھبرا بھی جاتی تھی۔

کرماں والی کی سوچ، خیال اور خوابوں میں اضافہ ہو رہا تھا۔ چچا رمزو ویسے تو ایک سادہ سا آدمی تھا لیکن باپ بھی تھا۔ ایک ایسا خاوند بھی جس کی بیوی مر چکی تھی۔ وہ ان ہونے والی تبدیلیوں کو بھانپنے لگا۔ ایک دن اسے کوئی مزدوری نہ ملی تو وہ جلدی گھر لوٹ آیا۔ کچھ وقت تھا اس لئے اس نے سوچا کہ کچھ دیر اپنی بیوہ بھابھی کی خیریت ہی دریافت کر لے۔ اس کا گھر پڑوس میں ہی تھا۔ رمزو جب وہاں گیا تو اس کی بھابھی بستر میں پڑی تھی۔ دیکھا تو کچھ بیمار سی لگی۔ پوچھا تو پتہ چلا کہ تین چار دنوں سے بخار آ رہا ہے۔ ہمدردی کے دو چار لفظ کہے۔ خیریت کی دعا کی۔ دوا کے لئے کہا تو بھابھی نے جواب دیا کہ عام قسم کا بخار ہے۔ اب تو اتر رہا ہے۔

‘بھابھی تم سے ایک بات بھی کرنی ہے’۔ ‘وہ کیا’ بھابھی نے پوچھا۔ ‘تمہیں پتہ ہے کی کرماں والی ما شا اللہ جوان ہو گئی ہے۔ اپنا بھتیجا بھی ابھی تک غیر شادی شدہ ہے۔گھر سے بھی دور رہتا ہے۔ گھر کے بچے ہیں۔ کیوں نہ ہم اس ذمہ داری کو ادا کر دیں۔ بھابھی یہ بات سن کر بستر سے اٹھ بیٹھی جیسے کوئی اچانک خوشخبری آ گئی ہو۔ ‘ہاں بھائی تم بالکل ٹھیک کہتے ہو۔ نوشیرواں بیٹا بھی فوج سے بھاگا ہوا ہے۔ ڈرا ہوا بھی ہے کہ گھر میں رہا تو فوجی پکڑ کر لے جائیں گے۔ اس بہانے کبھی کبھی چوری چھپے ہی سہی گھر آ جایا کرے گا۔ رشتہ طے ہو گیا اور یہ بھی کہ نوشیرواں سے خفیہ رابطہ کر کے اس گھر بلایا جائے۔ ہفتے کے اندر اندر یہ کام بھی کر لیا گیا۔

نوشیرواں گھر آ چکا تھا۔ چچا رمزو، نوشیرواں کی ماں اور نوشیرواں شام کے وقت اکٹھے بیٹھے تھے۔ نوشیرواں کی ماں نے پہل کی۔ ‘نوشیرواں بیٹے ابھی تک تمہیں بتایا نہیں کہ تمہیں کیوں بلایا ہے۔ ہم نے طے کیا ہے کہ آج رات کو تمہاری اور کرماں والی کا نکاح اور رخصتی کر دی جائے۔ اتنی سکت نہیں کہ برادری کے تمام لوگوں کو بلائیں اور کھانے بینے کا انتظام کریں۔ بس دو چار ہی قریبی لوگ ہوں گے اور ہم اس ذمہ داری سے فارغ ہو جائیں گے۔ نوشیرواں کو یہ بات عجیب سی لگی۔ کہنے لگا میں نے تو ابھی اس بارے سوچا نہیں ہے۔ بہر حال آپ دونوں کی مرضی۔ وہ دونوں خوش ہو گئے ۔ چچا رمزو خوشی سے اٹھ کر گھر چلا گیا۔ کرماں والی ایک سرہانہ کی کشیدہ کاری کر رہی تھی ۔ وہ اس کے پاس بیٹھا۔ ‘کرماں والی بیٹی میں نے ایک بات تم سے کرنی ہے’۔ ‘وہ کیا ابا’۔ میں نے اور تمہاری تائی نے تمہارا اور نوشیرواں کا رشتہ طے کر دیا ہے اور آج رات ہی رخصتی ہے۔ کرماں والی حیرانگی سے اپنے باپ کو دیکھنے لگی۔ اور کوئی جواب نہ دیا۔ چچا رمزو نے تجسس کے ساتھ پوچھا ‘کیوں کیا بات ہے ۔ وہ چپ رہی۔ ان نے پھر پوچھا اور کہا بیٹی اگر کچھ بات ہے تو بتاؤ۔ کرماں والی بڑی لاڈلی تھی۔ چچا رمزو اب اس کا باپ بھ ھے اور ماں بھی۔ ‘ابو میں نے تو دل میں ایک فیصلہ کیا ہوا ہے کہ میں حامد کے ساتھ کروں گی۔ جو رشتہ آپ نے طے کیا ہے مجھے پسند نہیں۔ ‘چچا رمزو کو ایسا روکھا سوکھا جواب بہت عجیب لگا۔ اسے غصہ بھی آ رہا تھا لیکن ان نے ضبط کیا کیونکہ اسکی مرحومہ بیوی کی شکل اسکے سامنے کھڑی تھی۔ ‘لیکن اب تو ہم نے فیصلہ کر لیا ہے۔ اگر کوئی ایسی بات تھی تو تمہیں بتانی چاہیے تھی اور ویسے بھی مجھے اپنے بھتیجے سے آ گے کوئی نہیں ہے ۔ لہذا کپڑے بدل کر تیاری کر لو۔ ایک دو سہیلیوں کو بلانا ہے تو بلا لو۔ نکاح اور رخصتی میں تین چار گھنٹے ہیں۔ سب کچھ بہت سادگی سے ہی کرنا ہے ۔’ کرماں والی کی آنکھوں میں آنسو تیر رہے تھے۔ چچا رمزو وہاں سے اٹھا اور اپنے چچا زاد بھائی اکرام کے پاس گیا۔ ‘بھائی تم گھر کے آدمی ہو۔ ایک مسئلہ درپیش ہے اسے حل کرنے میں میری مدد کرو’ ‘کیا’ اس نے پوچھا اور رمزو نے تمام بات بتا دی۔ ‘کوئی مسئلہ نہیں ۔ تم نے جو فیصلہ کیا ہے ٹھیک کیا ہے ۔ تمام تیاری کرو۔’ میں بھی پہنچ جاؤں گا۔ چچا رمزو مطمئن ہو کر چلا گیا۔

کرماں والی شادی کے لئے تیار ہو کر نہیں بیٹھی تھی۔ سہیلیوں کو بلایا ہوا تو تھا لیکن متواتر روئے جا رہی تھی۔ رمزو نے دوسری لڑکیوں کو ایک طرف بلایا اور کہا کہ اس کو تیار کرو۔ اور کہو کہ رونا دھونا بند کرے۔ تھوڑی دیر کے بعد اکرام بھی آنے والا ہے۔

تھوڑی دیر کے بعد اکرام بھی آ کیا۔ رشتہ داروں میں سے دو گواہ بھی اور نکاح خواں بھی ارت4 اکرام بھی چچا رمزو کے گھر آ چکے تھے۔ نکاح خواں کو اشارا کیا گیا۔ دونوں گواہوں کو اور اکرام کو لڑکی کے پاس اجازت کے لئے بھیجا گیا۔ اکرام نے بطور وکیل کرماں والی سے کہا کہ تہمارے لئیے نوشیرواں ولد حیات کا بطور خاوند طے ہونا پایا ہے کیا تمہیں یہ رشتہ قبول ہے ۔ کرمان والی کی طرف سے کوئی جواب نہ ملا۔ گواہ خاموش کھڑے تھے۔ اکرام نے دوبارہ کرماں والی سے وہی بات کہی اور ساتھ ہی کرماں والی کے دونوں کانوں پر اپنی دونوں ہتھیلیوں کو دبا کر کرمان والی کے سر کو تین دفعہ اونچا نیچا کیا اور ساتھ ہی پیڈ پر اس کا انگوٹھا دبا کر نکاح نامے کی چاروں پرتوں پر لگانے لگا۔

رجسٹر نکاح خوان کے پاس پہنچ چکا تھا۔ مولوی صاحب نے وکیل اور گواہوں سے کرماں والی کی ‘ہاں’ کی تصدیق چاہی۔ سبھی نے تصدیق کر دی۔ مولوی صاحب نے آیات کریمہ کی تلاوت کی اور سبھی ایک دوسرے کو مبارک باد دینے لگے۔ کرماں والی کی سہیلیاں اور محلے کی دوسری عورتیں کرماں والی کی رخصتی کی تیاری کرنے لگیں۔ تقریباً ایک گھنٹے بعد کرماں والی اپنے نئے گھر جا چکی تھی۔

دوسرے دن صبح ہی سے ہی محلے میں عجیب کھسر پھسر ہو رہی تھی۔ کھوج لگانے پر معلوم ہوا کہ نوشیرواں صبح کی نماز سے پہلے ہی گھر سے غائب تھا۔ نوشیرواں گھر سے ایسے غئب ہوا کہ آج اٹھارہ انیس سال گزر جانے کے باوجود اس کا کوئی پتہ نہین چلا۔ اس کی ماں بھی فوت ہو چکی ہے ۔ لیکن گھر میں آج ایک اور تقریب ہے۔ آج نوشیرواں اور کرماں والی کی بیٹی رقیہ کی شادی بڑی دھوم دھام سے ہو رہی تھی جس کے ساتھ ہی نوشیرواں اور کرماں والی کی شادی کی کہانی بھی دوبارہ لوگوں کے زہنوں سے چپک کر بیٹھی ہوئی ہے لیکن رقیہ کی شادی پر کافی لوگ آئے ہوئے ہیں ۔ خاص کر عورتیں پوری رات بلکہ صبح تک دیہاتی گیت گانے چلتے رہے ۔ ‘ اللہ اکبر، اللہ اکبر’ حاجی اکرام کی صبح کی اذان کی آواز سارے محلے میں گونج رہی تھی جبکہ رقیہ بھی اپنی ڈولی میں بیٹھ کر رخصت ہو چکی تھی۔

احسان الٰہی احسان۔

صدر ایوانِ ادب چکوال۔

Facebook
Twitter
WhatsApp

ادب سے متعلق نئے مضامین