کر رہی تھیں سبزہ زاروں میں جو کل اٹکھیلیاں
دام میں صیّاد کے اب آگئیں وہ ہرنیاں
موسمِ ہجراں میں خود سے بھی بچھڑنے لگ گیا
میں نے سوچی ہی نہ تھیں قسمت میں ایسی دوریاں
دل کی دھڑکن رک رہی ہے اور ایسا حبس ہے
جیسے کمرہ بند ہو اور بند ہوں سب کھڑکیاں
وقت کے سانپوں نے میرے قہقہوں کو ڈس لیا
ٹوٹ کر بکھری ہوئی ہیں ساعتوں کی کرچیاں
خواہشوں کا سانس گھٹتا جا رہا ہے اب مرادؔ
رنگ خوشبو اُڑ گئے ہیں جل رہی ہیں تتلیاں
شفیق مراد