غزل
کر گئے اتنا نکما ترے احساں ہم کو
فائدے سے بھی زیادہ ہوا نقصاں ہم کو
مے کشی سے ہمیں یہ فائدہ ہے اے زاہد
لگنے لگتے ہیں سبھی کام ہی آساں ہم کو
کون نقصان اٹھاتا ہے اصولوں کے لئے
دین و ایمان سے بڑھ کر ہیں دل و جاں ہم کو
ہم سے ناچیز بھی رکھتے ہیں یہ خواہش دل میں
کوئی سمجھے ہمیں آقا کوئی سلطاں ہم کو
آج پل باندھ رہے ہیں وہی تعریفوں کے
زندگی بھر جو سمجھتے رہے ناداں ہم کو
خود بخود ڈھونڈے گی رستہ کوئی رحمت اس کی
راس آ جائے گی خود گردش دوراں ہم کو
فکر فردا سے بڑا روگ نہیں کوئی بھی
عمر بھر رکھتی ہے بے کار پریشاں ہم کو
دل میں ہے درد ترا فکر تری پیار ترا
کیسے لگتا نہ یہ ویرانہ گلستاں ہم کو
درشن دیال پرواز