غزل
کسی سے اپنی خبر ہم وصول کیا کرتے
خود آئینوں کا بھی احساں قبول کیا کرتے
وہ کھیت کھیت رہیں جن کی خار دار صفیں
انہی میں پھول تھے دو چار پھول کیا کرتے
تمام جانوں کے دشمن تمام ہاتھ ہوئے
یہ امتیں تھیں اب ان کے رسول کیا کرتے
یہ کوئی عمر تھی تیری محبتوں والی
سروں کی راکھ میں شامل یہ دھول کیا کرتے
تمہارے جیسا کوئی نقش ہر نگار میں تھا
مگر تھے ہم بھی بہت با اصول کیا کرتے
انہیں کہ جن سے بڑی چوٹ کر گئی تھی حیات
اب اور پرسش غم سے ملول کیا کرتے
جہاں تھا توڑنا دستور کا بھی اک دستور
وہاں ہمارے تمہارے اصول کیا کرتے
ہم ایسے لوگ جو خوابوں کے چلنے والے تھے
سحر سے اجر مسافت وصول کیا کرتے
احسان اکبر