غزل
کسی کا دل تو کسی کا دھیان رکھتے ہوئے
میں مٹ رہا ہوں محبت کا مان رکھتے ہوئے
مچا رہی ہے بہت شور میری تنہائی
ادھر میں چپ ہوں یہ دیکھو زبان رکھتے ہوئے
شکست کھاتے ہوئے کیسے دیکھتا اس کو
شکست کھا گیا تیرو کمان رکھتے ہوئے
قلم کی نوک پہ ٹھہری ہوئی ہیں وہ چیخیں
جنہیں سنا ہی نہیں دل نے کان رکھتے ہوئے
جسے بھی چلنا سکھایا وہ میرے رستے میں
گیا تو درد کا اک امتحان رکھتے ہوئے
تماشا بن نہ سکا اس لیے محبت میں
ملا تھا فاصلہ جو درمیان رکھتے ہوئے
وہ اپنی سوچ کے صحرا کرے نہ کیوں آباد
جو محوِ رقص ہے غم کا جہان رکھتے ہوئے
وہ زندگی کو جیے تو بھلا جیے کیسے
یہاں جو تنہا ہے اک خاندان رکھتے ہوئے
سزا سنائی ہے اس بار بھی محبت نے
مری ہتھیلی پہ غم الامان رکھتے ہوئے
کیا ہے موجِ نسیمی کو شاملِ اردو
یقینِ دل کو میاں ترجمان رکھتے ہوئے
نسیم شیخ