کسی کو نظموں میں گھول جانا کسی کو دل کا قرار لکھنا
عجیب رشتے ہیں چاہتوں کے رفاقتوں کے ملال لکھنا
عجیب موسم ہے آشنائی مقدروں کے حساب لکھنا
کبھی خودی بے مہار ہونا کبھی تو خود کو نہال لکھنا
ہمارے جیسے ہی ہر بشر کو ہزار شکوے ہیں زندگی سے
کبھی تو دکھ کا زوال لکھنا کبھی خوشی کو خیال لکھنا
وہ جن کے ہونے سے زندگی میں عجیب چاہت پگھل رہی ہے
انہیں کبھی تو غزال لکھنا انہی کو ماہِ جمال لکھنا
اجارہ داری ہے دل پہ اس کی نگاہ نے دل کو زبان دی ہے
کبھی تو شوقِ وصال لکھنا اور اس کو مثلِ ہلال لکھنا
مجھے مٹا کے بناؤ پھر سے یا مجھ میں دل کو رکھو دوبارہ
کبھی نہ میرا زوال لکھنا مجھے تو اسمِ رجال لکھنا
وجودِ وحشت ہے خود نمائی کمال پیشی ہے خود رسائی
کبھی تو رنجِ وبال لکھنا کبھی تو لطفِ وصال لکھنا
ہم اپنے ہونے پہ خوش تو یوں ہیں کہ آدمی ہیں سوال کیسا
حکایتوں کی تمام لہروں میں اپنی کشتی کمال لکھنا
ارم ایوب