کس نے کہا کسی کا کہا تم کیا کرو
لیکن کہے کوئی تو کبھی سن لیا کرو
ہر آرزو فریب ہے ہر جستجو سراب
مچلے جو دل بہت اسے سمجھا دیا کرو
یوں چپ رہا کرے سے تو ہو جائے ہے جنوں
زخم نہاں کرید کے کچھ رو لیا کرو
ہاں شہر آرزو تھا کبھی یہ اجاڑ گھر
اب کھنڈروں سے اس کی کہانی سنا کرو
اس ناشنیدنی سے تو بہتر ہے چپ رہو
ہے کیا ضرور شکوۂ بے فائدہ کرو
اٹھ کر چلے گئے تو کبھی پھر نہ آئیں گے
پھر لاکھ تم بلاؤ صدائیں دیا کرو
نالے ابل رہے ہوں تو رستا بھی چاہئے
بلقیسؔ گاہے گاہے غزل کہہ لیا کرو
بلقیس ظفیر الحسن