غزل
کس کو ملنے کا اس کے چاؤ نہیں
کس کو اس شوخ سے لگاؤ نہیں
کون سا دل ہے وہ کہ جس دل میں
اس کے تیر نگہ کا گھاؤ نہیں
مصحف رخ پہ کیونکہ ٹھہرے نظر
اس میں مطلق کوئی رہاؤ نہیں
دل تھا اپنا دیا جسے چاہا
کچھ کسی کا ہمیں دباؤ نہیں
اہل غیرت کو نان خشک اپنی
بخدا کچھ کم از پلاؤ نہیں
بس کہا مانو آؤ حضرت دل
جھوٹے وعدوں پہ اس کے جاؤ نہیں
قول ہے اہل تجربہ کا یہی
آزمائے کو آزماؤ نہیں
آتش غم میں تیری فرقت نے
دل کو کس دن دیا تپاؤ نہیں
اس کے رخ کی وہ آب و تاب ہے عیشؔ
مہ و خورشید جس کے پاؤ نہیں
حکیم آغا جان عیش