کشت امید بارور نہ ہوئی
لاکھ سورج اگے سحر نہ ہوئی
۔
ہم مسافر تھے دھوپ کے ہم سے
ناز برداریٔ شجر نہ ہوئی
۔
مجھ کو افسوس ہے کہ تیری طرف
سب نے دیکھا مری نظر نہ ہوئی
۔
گھر کی تقسیم کے سوا اب تک
کوئی تقریب میرے گھر نہ ہوئی
۔
نام میرا تو تھا سر فہرست
اتفاقاً مجھے خبر نہ ہوئی
۔
جانے کیا اپنا حال کر لیتا
خیر گزری اسے خبر نہ ہوئی
لیاقت علی عاصم