کشش ہر ایک کو ہر ایک کو طلسم دیا
جہاں کو اسم تو آب و ہوا کو جسم دیا
تو کیا اسے بھی اندھیرے سے خوف آتا تھا
مُہیب شب نے سحر کی دعا کو جسم دیا
عجیب لمحے تھے جب میں سمے سے باہر تھا
خموشی ایسی تھی جس نے صدا کو جسم دیا
مُجھے تو یوں لگا جیسے کہ ہو بہو تو ہے
تصورات نے جب بھی حیا کو جسم دیا
نجانے پیشِ نظر کون سی تمنا تھی
دعا کو پر دیے میں نے خلا کو جسم دیا
جب اس کو توڑ دیا خود بھی ٹوٹ ٹوٹ گیا
شکستگی کے لیے کیوں انا کو جسم دیا
نفس کو جیسے ہوا اور ہوا کو جیسے نفس
دیئے کو جسم ضیا تو ضیا کو جسم دیا
طریر ذہن نے کی بارہا نفی لیکن
مرے خیال نے اکثر خدا کو جسم دیا
دانیال طریر