غزل
کلاہ کج بدل جاتی ہے یا افسر بدلتا ہے
ابھی کھلتا نہیں کیا وقت کا تیور بدلتا ہے
یہ دیکھا ہے کہ محور استوا اوپر بدلتا ہے
فلک صدیوں پرانی نیلگوں چادر بدلتا ہے
دلوں میں سوز غم والے دھوئیں بھی آرزوئیں بھی
عجم والا مسلماں ہر صدی میں گھر بدلتا ہے
نشاں کردہ گھروں کو چھوڑ بھاگے گھر جو لوٹے ہیں
تو دیکھا پچھلی شب دہلیز کا نمبر بدلتا ہے
ہر اک فرعون کے احوال غرقابی جداگانہ
کبھی دریا بدلتا ہے کبھی لشکر بدلتا ہے
زمانہ احتراماً گھوم جاتا ہے اسی جانب
جو اچھائی کو اک انسان رتی بھر بدلتا ہے
ہم اب مغرب کے دست آموز دنیا کو نہیں لگتے
اگ آئیں بال و پر اپنے تو بال و پر بدلتا ہے
کوئی دروازہ بھیتر کی طرف کھلتا نہیں احساںؔ
وہی اندر کی کالک ہے فقط باہر بدلتا ہے
احسان اکبر