غزل
کلی کو پھولوں کی زندگی کا شعور پھر ایک بار ہوگا
خزاں سے پیدا بہار کر لے چمن کو یہ اختیار ہوگا
زمانہ پہلو بدل رہا ہے فلک کے تیور بتا رہے ہیں
حریف جس کو چھپا رہے تھے وہ راز اب آشکار ہوگا
سنا ہے صحرا نشیں گلستاں کی زندگی کو فروغ دیں گے
اگر یہ سچ ہے تو اہل گلشن کو باعث افتخار ہوگا
ادب سے مے خوار سن رہے ہیں نگاہ ساقی کی کہہ رہی ہے
یہی پرانا شراب خانہ حیات نو کا حصار ہوگا
نجوم کی انجمن میں اہل زمیں کی حالت کا تذکرہ تھا
بھر آئی شبنم کی آنکھ بولا قمر اسے ناگوار ہوگا
خزاں کے منظر کو یاد کر کے ہنسی اڑانا ہنسی نہیں ہے
خزاں کا دامن جنوں کے ہاتھوں بہار میں تارتار ہوگا
نئے چمن سے نگاہ مغرب نے پھول غیرت کے چن لیے ہیں
جو دل میں گلچیں کے چبھ رہا ہے پرانے گلشن کا خار ہوگا
غلط ہے اولاد اہل دانش کو وہ مذاق نظر نہیں ہے
ہوا تو ہے سازگار زیدیؔ مگر کوئی انتظار ہوگا
ابوالفطرت میر زیدی