غزل
کوئی بیٹھا رہا شباب سمیت
اور میں سو گیا کتاب سمیت
یہ کہا تھا ترا جواب نہیں
پھر کوئی آ گیا جواب سمیت
میں ترے خالی ہاتھ کے قربان
مجھ سے ملنا مگر گلاب سمیت
ملنے آیا ہے کوئی جان غزل
میرؔ صاحب کے انتخاب سمیت
نیند آتی ہے کروٹیں لے کر
رنج کے ساتھ اضطراب سمیت
ڈوب جانے میں کوئی حرج نہیں
ڈوبنا ہو اگر شراب سمیت
اکرام عارفی