غزل
کوئی تو تھا دھنک دھنک خواب میں یا خیال میں
رنگ عجیب گھل گئے کیفیت ملال میں
مہر تھی مرے نطق پر تیرے لبوں کی نغمگی
ورنہ جواب تھے چھپے تیرے ہر اک سوال میں
بول تو سوچ سوچ کر چل تو سنبھل سنبھل کے چل
کی ہے بہت گلو کی بات ہم نے تری مثال میں
سرد دنوں کی طرح گم ہو گئی اپنی زندگی
فرق کہاں رہا کوئی ماہ میں اور سال میں
میرے رواق دل میں تو چلتا تھا کتنے ناز سے
آ گئی کیسے اب لچک تیری صبا سی چال میں
میرے فراق میں تری عمر ٹھہر گئی تھی کیا
بال سفید ہو گئے میرے ترے خیال میں
موسم تازہ ہو کبھی میری طرف بھی اک نظر
اترے کوئی نیا پرند میرے غموں کے تال میں
اپنے کنارہ کر نہ اب باقرؔ خوش مثال سے
بے ہنری شریک تھی اس کی ترے کمال میں
باقر نقوی