کوئی جمال پہ حیراں کوئی وصال میں گم
کوئی کمال ، کوئی صاحب کمال میں گم
جو زندہ لوگ ہوں زندہ رہیں گے تا بہ ابد
ہوا نہ ہو گا کہیں کچھ بھی ماہ و سال میں گم
یہ کس کمال سے الجھا دیا ہے تو نے مجھے
ترے جواب پہ حیراں ترے سوال میں گم
بہت سے زخم جو بھر کر بھی تازہ رہتے ہیں
بہت سے درد جو ہوتے ہیں اندمال میں گم
یہ اپنے اپنے مقدر کی بات ہے مرے دوست
شکار حال میں اپنے، شکاری جال میں گم
یہ خواہشات کے مارے، ضرورتوں کے اسیر
قمر جو رہتے ہیں سب اپنے اپنے حال میں گم
اقبال قمر