کوئی دردِ دل سے تڑپ اٹھا کوئی دل دکھا کے چلا گیا
پڑی تجھ پہ جس کی بھی اک نظر وہی تیر کھا کے چلا گیا
ہوا یہ بھی اک بڑا حادثہ وہ ملا مجھے سرِ رہ گزر
کوئی بات اس نے سنی کہاں وہ نظر ملا کے چلا گیا
تھا وہ فتنہ گر بڑا تیز تر اسے حال کی مرے تھی خبر
مری مے کشی ہوئی دم بخود کہ وہ کیا پلا کے چلا گیا
مجھے منزلوں کا پتہ نہ تھا سرِ راہ کوئی نشاں نہ تھا
میں بھٹک رہا تھا ڈگر ڈگر مجھے سب بھلا کے چلا گیا
ہوئےکتنےچرچےبھی ہرطرف کہ وہ کرچکا مجھے بر طرف
مرے واسطے ہے خوشی یہی کہ وہ گھر بلا کے چلا گیا
خاور کمال صدیقی