کوئی منظر سبز اور شاداب آنکھوں میں نہیں
جز خزاں کچھ بھی مری بے خواب آنکھوں میں نہیں
دیکھتی جاتی ہوں اس کو ڈوبتی جاتی ہوں میں
کون یہ کہتا ہے کہ گرداب آنکھوں میں نہیں
کس طرح آخر کٹے گا تیرگی کا یہ سفر
ہاتھ میں سورج نہیں مہتاب آنکھوں میں نہیں
پانی بھل بھل بہہ رہا ہے کس طرح حیران ہوں
گرچہ کوئی جھیل یا تالاب آنکھوں میں نہیں
سب مسافر جا چکے سب عکس پتھر بن گئے
کوئی بھی تو ان مری پایاب آنکھوں میں نہیں
پڑھ رہی ہوں میں کتاب وصل کتنی دیر سے
شکر ہے اب فرقتوں کا باب آنکھوں میں نہیں
جسم رفعت تھک چکا جلتی نگاہیں بجھ گئیں
اب تو کچھ بھی دیکھنے کی تاب آنکھوں میں نہیں
رفعت وحید