کوئی نہیں جو پوچھ لے کیا مانگتے ہیں لوگ
پھر کس سے دردِ دل کی دوا مانگتے ہیں لوگ
جو سچ کہے گا جان سے جائے گا سوچ لو
اس ظلم جبر سے بھی پناہ مانگتے ہیں لوگ
مہنگائی کے ستائے اور عاجز عوام ہیں
ہو ظلم سے نجات دعا مانگتے ہیں لوگ
چادر مزار پر بھی چڑھاتے رہیں مگر
غربا کی بیٹیوں کی ردا مانگتے ہیں لوگ
دریا کا میٹھا پانی سمندر میں ڈال کر
نمکین پانیوں سے شفا مانگتے ہیں لوگ
کاوش وطن کے پاؤں بھی چھالوں سے بھر گئے
مرہم کہاں سے لاؤ بھلا مانگتے ہیں لوگ
کاوش کاظمی