غزل
کوئی وظیفہ مجھے بھی بتا مرے درویش
تجھے ہوئی ہے فقیری عطا مرے درویش
مری خطا تو بس اتنی ہے اس تعلق میں
یہی کہ ہونی کو ہونے دیا مرے درویش
اسے میں پیار محبت کا نام کیسے دوں
یہ اور طرح کا ہے تجربہ مرے درویش
کہ جس نے باندھ دیا تیری ذات سے مجھ کو
یہ روح کا ہے کوئی سلسلہ مرے درویش
ہر ایک سانس جڑی ہے تری رضا کے ساتھ
تو کیا یہی ہے مکمل وفا مرے درویش
تو زندگی کا ستارہ بھی استعارہ بھی
مرے لئے تو ہے سورج نما میرے درویش
یہ تیرا عشق مہکتا ہے رات دن مجھ میں
کہ اور کچھ نہیں مجھ میں نیا مرے درویش
کہ اب وجود سے موجود سے نہیں ہے غرض
ہے لاوجود کی مجھ میں صدا مرے درویش
ناہید ورک