غزل
کوششیں جتنی بھی ہوتی رہیں سلجھانے کی
زندگی اور الجھتی رہی دیوانے کی
جادہ پیمائی کا پھر شوق ہوا ہے مجھ کو
وسعتیں اور بڑھا دو ذرا ویرانے کی
ہو صداقت پہ جو مبنی ترے آنے کی خبر
اور بڑھ جائے گی رونق مرے کاشانے کی
لوگ کہتے ہیں کہ اکسیر صفت ہوتی ہے
ہم بھی کچھ خاک اٹھا لائے ہیں میخانے کی
ہے بڑا فرق اگر غور سے دیکھا جائے
ایک منزل ہی سہی شمع کی پروانے کی
عشق نے مجھ کو کہیں كا بھی نہ چھوڑا بسملؔ
اب ہے پہچان یگانے کی نہ بیگانے کی
بسمل آغائی