کون گماں یقیں بنا کون سا گھاؤ بھر گیا
جیسے سبھی گزر گئے جونؔ بھی کل گزر گیا
۔
اس کا چراغ وصل تو ہجر سے رابطے میں تھا
وہ بھی نہ جل سکا ادھر یہ بھی ادھر بکھر گیا
۔
زیست کی رونقیں تمام اس کی تلاش میں رہیں
اور وہ غم نژاد جونؔ کس کو خبر کدھر گیا
۔
گام بہ گام اک بہشت اور وہ اس کی ایک ہشت
راہ میں بھی رکا نہیں اور نہ اپنے گھر گیا
۔
رسم سپردگی کو کب درخور اعتنا کہا
خود سے جو تھا گریز پا سب سے گریز کر گیا
۔
اس کے سخن کا معجزہ اس کی نہیں میں دیکھیے
ہاں بھی ہے ماجرا مگر جونؔ کہاں ادھر گیا
۔
اس کو تھا سخت اختلاف زیست کے متن سے سو وہ
بر سر حاشیہ رہا اور کمال کر گیا
۔
اس کے خیال کی نمود عہد بہ عہد جاوداں
بس یہ کہو کہ جونؔ ہے یہ نہ کہو کہ مر گیا
پیرزادہ قاصم