غزل
کوچہ کوچہ گھوم کے دیکھا بات تو اتنی جانی ہے
جتنا جتنا شہر بڑا ہے اتنی ہی ویرانی ہے
دل کے کارن اس دنیا میں کتنے گھاؤ کھائے ہیں
لیکن جب بھی موقع آیا بات اسی کی مانی ہے
یہ سنسار ہے گہرا ساگر اس کے اندر موتی ہیں
ساحل پر تم موتی ڈھونڈو یہ تو بڑی نادانی ہے
یوں تو اس جیون کا پل پل ایک سہانا سپنا ہے
منموہن البیلا ساجن اس میں ایک جوانی ہے
ان آنکھوں نے آج نہ جانے کیسا منظر دیکھا ہے
آج مرا دل دھڑک رہا ہے آج بڑی حیرانی ہے
ایوانوں میں رہنے والو کٹیاؤں پر ایک نظر
مال و منال کی قیمت کیا ہے یہ دنیا تو فانی ہے
الجھاؤ پہ الجھاؤ ہیں اس ہستی کی بستی میں
ایک طویل بکھیڑا ہے یہ ایک عجیب کہانی ہے
من مندر میں فیضؔ ہمارے میلہ ہے کنیاؤں کا
ہر صورت اک مورت ہے اور ہر تصویر سہانی ہے
فیض تبسم تونسوی