کِھل رہا ہے زمینِ بنجر میں
اک سخن کا گلاب پتھر میں
ایک چپ سی لگی ہے دونوں کو
شور بھرنے لگا ہے بستر میں
کر دی بے رنگ زندگی کی دھنک
راکھ رکھی گئی مرے پر میں
مٙیں جو رخصت ہُوا تو اس کے بعد
کچھ بچے گا ترے بھرے گھر میں
خود کو مہمانِ خاص سمجھا تھا
نام لکھا ہوا ہے دیگر میں
اتنی آسائشوں کے ہوتے ہوئے
عمر کاٹی ہے حالِ ابتر میں
مجھ میں کونپل بقا کی ہے طاہر
یہ جو میں ہوں فنا کے منظر میں
قیوم طاہر