غزل
کچھ اس طرح تری تفسیر کر رہے ہیں ہم
چھلکتے جام کو تصویر کر رہے ہیں ہم
ہمارے بچوں کے سر مانگتی ہیں بنیادیں
یہ کیسے شہر کی تعمیر کر رہے ہیں ہم
وہ دور راہ میں انساں نہ جل رہا ہو کوئی
جسے چراغ سے تعبیر کر رہے ہیں ہم
تم اپنے زخموں کا کوئی حساب مت رکھنا
بیاض قلب پہ تحریر کر رہے ہیں ہم
تری خرد کو کسی دن جکڑ کے رکھ دیں گے
ابھی جنون کو زنجیر کر رہے ہیں ہم
ہے کیسا کرب کہ اپنی ہی سرزمین پہ قیسؔ
دفاع سنت شبیر کر رہے ہیں ہم
قیس رامپوری