غزل
کچھ بھی ہو جائے میں اسباب نہیں دیکھوں گا
تجھ سے ملنے کے کبھی خواب،نہیں دیکھوں گا
چپ رہوں گا میں بھرے مجمع میں لیکن مرے دوست
خوف و دہشت زدہ اعصاب نہیں دیکھوں گا
یونہی خاموش رہوں گا میں تری محفل میں
تجھ کو ہوتا ہوا بیتاب نہیں دیکھوں گا
میں بھی اس خانہ بدوشی کی سہولت کے طفیل
دل کے صحرا میں کبھی آب نہیں دیکھوں گا
روز دیکھوں گا محبت کے فسانوں کو ندیم
اپنی خوش فہمی کے ابواب نہیں دیکھوں گا
ندیم ملک