غزل
کچھ تو دنیا سے کما لے جائیے
ہم فقیروں کی دعا لے جائیے
ہو سکے تو اس کی چوکھٹ کے لیے
سجدۂ دل آشنا لے جائیے
یہ بھی کیا کم ہے کہ اس کے شہر میں
صرف زخموں کی ردا لے جائیے
اب چراغوں سے دھواں اٹھنے لگا
اب چراغوں کو اٹھا لے جائیے
صرف امید وفا پر عمر بھر
آستیں میں سانپ پالے جائیے
تاکہ میں خود سے بھی پوشیدہ رہوں
پردہ آئینے پہ ڈالے جائیے
اس سے ظالم کے بڑھیں گے حوصلے
یوں نہ زخموں کو چھپا لے جائیے
اور تو کچھ بھی نہیں دل کے سوا
جو بھی ہے اچھا برا لے جائیے
تابش مہدی