غزل
کھلا ہوا ترا چہرہ گلاب کا سا تھا
اور اس پہ نور کسی ماہتاب کا سا تھا
بہار کی کوئی توجیہہ اور کیا کیجے
تمام رنگ تمہارے شباب کا سا تھا
تمام شہر تمنا میں گھوم کر دیکھا
وہی سماں دل خانہ خراب کا سا تھا
ترے قریب تو خود سے بعید ہو کے رہے
تمہارا لطف تمہارے عتاب کا سا تھا
وہ ایک پل جو تمہارے بغیر بیت گیا
وہ ایک پل بھی تو یوم حساب کا سا تھا
فیض تبسم تونسوی