Khilkhilany say na Hansnay Muskurany say Gharaz
غزل
کھلکھلانے سے، نہ ہنسنے مسکرانے سے غرض
چشم نم کو بزم اشکوں کی سجانے سے غرض
کتنا سمجھایا کہ خوابوں میں نہ آیا کر مرے
لیکن اس کو ہے مری نیندیں چرانے سے غرض
رہبران قوم واقف ہیں ہر اک سچائی سے
پر دکاں ان کو سیاست کی چلانے سے غرض
کیا غرض اس سے کہ روز حشر ہوگی بازپرس
ظلم ڈھائیں، آپ کو ہے ظلم ڈھانے سے غرض
یہ حقیقت آج آخر کھل گئی بے ساختہ
دشمنِ دل کو ہے میرا دل جلانے سے غرض
عشق میں سچائی ہو تو عاشق و معشوق کے
دور جانے سے نہ پھر نزدیک آنے سے غرض
زہر سے جائے، دوا سے یا کہ لمس یار سے
چاہے جیسے بھی یہ جائے، درد جانے سے غرض
پاسِ خاطر سے کوئی مطلب نہیں ہے عقل کو
شاؔد اسے ہر کام میں ہے ٹانگ اڑانے سے غرض
شمشاد شاد
Shamshad Shad