کھلے جو آنکھ تو پیہم سراب دیکھتے ہیں
یہ کیسے لوگ ہیں، جو پھر بھی خواب دیکھتے ہیں
غموں کے بحر میں خوشیوں کو ڈوبتے ہر روز
یہ بد نصیب، یہ خانہ خراب دیکھتے ہیں
ستم گرو! یہ ستم منحصر تو زیست پہ ہے
ہے کب تلک یہ کسے دستیاب، دیکھتے ہیں
ہے پھر سے شہرِ نگاراں بلاؤں کی ذد پر
اندھیرے ہو کے اِسے بے حجاب دیکھتے ہیں
اجاڑ دیتے ہیں پہلے ہی گھر کو دیوانے
ہواؤں میں جو کبھی اضطراب دیکھتے ہیں
یہ پہلے جان لیں انجامِ کار کیا ہوگا
چلو کہ عشق کا تفصیلی باب دیکھتے ہیں
یہاں پہ نام و نسب سے ہے منزلت کاشفؔ
ہے کون کون وہاں کامیاب ، دیکھتے ہیں
کاشف علی ہاشمی