غزل
کھولیں گے نہیں قفل نہ پہچان کریں گے
ہم دور سے اندازہ ء زندان کریں گے
سیٹی سےبلالیں گے پرندوں کو زمیں پر
مینار ترے شہر کے ویران کریں گے
صحرا میں اتاریں گے سفینے مرےملاح
دریا ترے پانی کو پریشان کریں گے
اک بار فقط اذنِ ملاقات عطا ہو
پھروصل کی خواہش نہ مری جان کریں گے
یہ ہجر زدہ لوگ اگر روتے رہے تو
بپھرے ہوئے دریا کو بھی حیران کریں گے
اس طرزِ ہنرمندی سےہم اسکو چھوئیں گے
پتھر بھی اگر ہے اُسے مرجان کریں گے
اسد رضا سحر